مرگی کے مریضوں کے لیے انفرادی علاج کے منصوبے زیادہ مفید ہیں: ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

کراچی ( صباح نیوز) پاکستان ایپی لیپسی فاؤنڈیشن کی صدر اور ملک کی معروف نیورو فزیشن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ مرگی کے مریضوں کے لیے انفرادی طور پر علاج اور انتظامی منصوبے زیادہ مفید ہیں کیونکہ ایک مریض کی ضروریات دوسرے مریض کی ضروریات سے مختلف ہوتی ہیں۔وہ پی سی بھوربھن میں تین روزہ” ایپی لیپسی منی فیلو شپ 2023” تقریب کے شرکاء سے خطاب کر رہی تھیں، یہ فیلوشپ گزشتہ بارہ سالوں سے منعقد کی جارہی ہے۔ایپی لیپسی منی فیلو شپ کے انعقاد کا مقصد ان نوجوان ڈاکٹرز کو تربیت دینا ہے جو کہ مرگی کے مریضوں کے علاج میں دلچسپی رکھتے ہیں یا پھر جن کے پاس مرگی کے زیادہ مریض علاج کے لیے آتے ہیں۔

تقریب کا اہتمام آغا خان یونیورسٹی کراچی کی آرگنائزر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کیا تھا اور ڈاکٹر بشیر جمعہ گیٹز فارما کی غیر محدود تعلیمی گرانٹ کی مدد سے منعقد ہونے والی تقریب کے شریک منتظم تھے۔ جس میں ڈاکٹر محمد واسع، ڈاکٹر عزیز سونا والا، ڈاکٹر احسان باری (نیورو سرجن) شفا انٹرنیشنل اسلام آباد، ڈاکٹر ارسلان احمد، ڈاکٹر میمونہ صدیقی، ضیاء الدین یونیورسٹی سے ڈاکٹر بشیر سومرو، لاہور چلڈرن ہسپتال سے ڈاکٹر ٹیپو سلطان، ڈاؤ یونیورسٹی کراچی سے ڈاکٹر نائلہ شہباز، ڈاکٹر عزیز سونا والا اور دیگر ماہرین منی فیلو شپ کے فیکلٹی کے طور پر شریک ہوئے۔

ماہرین نے نوجوان نیورو فزیشن خصوصاً مرگی کے علاج میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو اس بیماری کے علاج کے نئے انتظامی طریقوں کے بارے میں تربیت دی۔ انہوں نے کہا کہ حاملہ خواتین، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں اور بوڑھے مریضوں کے علاج کا منصوبہ ان کی انفرادی ضروریات کے مطابق بنایا جانا چاہیے۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے مرگی کی بہتر آگاہی اور جلد تشخیص کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ مرگی کے مریض کو جلد از جلد تربیت یافتہ معالج کے پاس بھیجنا چاہیے اور ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اس کے علاج کا منصوبہ بند نہیں کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مناسب علاج اور دیکھ بھال سے مرگی کے مریض نتیجہ خیز اور خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔واضح رہے کہ ایپی لیپسی منی فیلوشپ ایک وسیع کورس ہے جو کہ Kiffen Penry Epilepsy Minifellows Association of Winston-Salem, USA سے اخذ کیا گیا ہے۔ کورس کو مقامی ضروریات کے مطابق تبدیل کیا گیا ہے تاکہ مرگی کے مریضوں سے نمٹنے والے معالجین کی مدد کی جا سکے اور سائنسی درستگی و سمجھ بوجھ کا انتظام کیا جا سکے۔