عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح کی کوششیں : تحریر مزمل سہروردی


عمران خان آج کل نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو لے کر کافی پریشان نظر آرہے ہیں۔

ویسے تو عمران خان کے پارلیمان سے بائیکاٹ کی وجہ سے حکومت کو نئے نیب چیئرمین لگانے کے لیے فری ہینڈ مل گیا ان کی جاوید اقبال سے جان چھوٹ گئی، لیکن عمران خان کو نیب کے چیئرمین کے لگنے اور ہٹنے سے کوئی خاص سروکار نہیں ان کے لیے یہ کوئی اہم نہیں اسی طرح اگر وہ پارلیمان میں ہوتے تو یقینا نیب قوانین میں ترامیم کا راستہ روک سکتے تھے لیکن نیب قوانین میں ترامیم بھی ان کے لیے کوئی اہم نہیں۔ وہ ان ترامیم کے خلاف عدالتوں میں گئے ہیں لیکن وہ بھی ایک سیاسی شعبدہ بازی ہی ہے۔

کیونکہ عدالتیں بھی ان سے سوال کر رہی ہیں کہ آپ نے پارلیمان میں اپنا کردار کیوں نہیں ادا کیا۔ پھر عمران خان کو علم ہے کہ عدالتیں پارلیمان کی قانون سازی کو مسترد نہیں کر سکتیں جب تک وہ آئین سے متصادم نہ ہوں۔ اسی طرح عمران خان کے قومی اسمبلی سے بائیکاٹ کی وجہ سے ہی حکومت نے الیکشن کمیشن کے باقی دو ممبران بھی نامزد کر دیے۔
اگر عمران خان قومی اسمبلی کا بائیکاٹ نہ کرتے تو یہ دو ممبران بھی نامزد نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لیے اگر دیکھا جائے تو عمران خان کے قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کی وجہ سے انھیں ان گنت سیاسی نقصان ہو چکا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی لگ رہا ہے کہ انھیں اس نقصان کی کوئی پرواہ نہیں اور وہ اس نقصان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اسی لیے ان کے سیاسی جلسوں میں اس پر فوکس بھی کم ہی نظر آتا ہے۔

دوسری طرف آرمی چیف کی تعیناتی عمران خان کے لیے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے حالانکہ دیکھا جائے تو آرمی چیف کی تعیناتی مروجہ طریقہ کے تحت ہوتی ہے پاکستان کی سیاست میں اس حوالے سے باتیں کرنا درست عمل نہیں ہے لیکن عمران خان کی سیاست آرمی چیف کی تعیناتی کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ ان کے سیاسی جلسوں اور ان کے ٹی وی انٹرویوز کا محور بھی آجکل یہی موضوع ہے۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو نیا آرمی چیف نہیں لگانے دیں گے۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ اگلے انتخابات تک نئے آرمی چیف کی تعیناتی موخر کر دی جائے۔

جب ان سے پوچھا جائے کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ موجودہ آرمی چیف کی اگلے انتخابات تک توسیع کے حق میں ہیں تو کہتے ہیں نہیں نہیں میں توسیع کی بات نہیں کررہا لیکن پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو یہ تعیناتی اگلے انتخابات تک موخر کر دینی چاہیے۔ کیا کوئی عمران خان سے سوال کر سکتا ہے کہ اگر موخر بھی کرنی ہے توکس طریقہ کار کے تحت کرنی ہے لیکن اس پر موصوف جواب نہیں دیں گے۔

عمران خان اسی ماہ ایک نئی احتجاجی کال دینے کا اشارہ بھی دے رہے ہیں۔ عمومی رائے یہی ہے کہ وہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ پنجاب میں حکومت ان کی ہے اس لیے اسلام آباد پر چڑھائی کرنا بہت آسان ہے کیونکہ پی ٹی آئی کو پنجاب میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ لیکن کہیں نہ کہیں عمران خان کو اندازہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی مدد کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔

وہ بے شک اسلام آباد پر ایک اور چڑھائی کرلیں لیکن شاید اس کے نتیجے میں بھی حکومت نہیں جائے گی۔ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے اور اس پر چڑھائی کا ایسا فری لائسنس نہیں دیا جا سکتا۔ کیا اسلام آباد کی حفاظت پنجاب حکومت کی مرہون منت ہو گی۔ ایسا ممکن نہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں عمران خان کی یہ کال ملک کو چیلنج کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ وہ ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اس لیے کہیں نہ کہیں یہ رائے بھی موجود ہے کہ اس نئی کال کو پرانی کال سے بھی زیادہ سختی سے نبٹا جائے گا۔ صوبائی حکومتوں کو وفاق پر چڑھائی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

سب سوال کر رہے ہیں کہ عمران خان کو جلدی کیا ہے۔ وہ اگلے سال تک انتخابات کا انتظار کیوں نہیں کر سکتے۔ دو صوبائی حکومتیں مکمل ان کے پاس ہیں۔ وہ اگلے سال انتخابات تک پارلیمان میں بیٹھ کیوں نہیں سکتے۔ ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ عمران خان نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے خوف زدہ ہیں۔ پتہ نہیں کیوں لیکں ایسا لگتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا سیاسی کھیل ختم ہوجائے گا۔ ان کا چانس ختم ہو جائے گا۔ اسی لیے وہ سب کچھ اسی سال کرنا چاہتے ہیں۔ اگلے سال کا انتظار نہیں کرنا چاہتے۔

عمران خان چند ماہ سے اداروں پر مسلسل حملہ کر رہے ہیں۔ ان کی جماعت کی جانب سے پاک فوج کے سربراہ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی گئی۔ وہ تقاریر میں بھی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔لیکن اب شاید خوفزدہ بھی ہیں اور اس خوف کی وجہ سے انھوں نے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کو دوبارہ ٹھیک کرنے کی کوشش کا اشارہ دے دیا ہے۔ کیا وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آرمی ایکٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا تو اس کے اسٹبلشمنٹ سے تعلقات ٹھیک ہو گئے تھے۔ اسی طرح اگر وہ بھی توسیع کے حق میں اشارے دیں گے تو ان کے بھی بگڑے تعلقات ٹھیک ہو جائیں گے۔

آج کل ویسے بھی عمران خان امریکا سے بھی تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے امریکا میں ایک لابی فرم کی خدمات بھی حا صل کی ہیں۔ اس فرم کی خدمات حاصل کرنے کے بعد ہی پاکستان میں امریکی سفیر کو کے پی میں زبردست پروٹوکول دیا گیا۔ انھیں وزیراعلی کی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔

امریکی ایڈ کو بھی کے پی میں خوش آمدید کہا گیا اور اس کے ملنے پر فاتحانہ خوشی منائی گئی۔ اب رابن رافیل سے ملاقات کو بھی فتح ہی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس لیے صاف ظاہر ہے کہ عمران خان امریکا کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب وہ اپنے جلسوں میں امریکی خط کا بھی ذکر نہیں کرتے۔ ہم کوئی غلام ہیں کا نعرہ بھی نہیں لگاتے۔ اب وہ امریکا سے دوستی کی کوشش کررہے ہیں۔ اس میں وہ کتنے کامیاب ہیں کتنے ناکام یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تا ہم کوشش صاف نظر آرہی ہے۔ خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان امریکا اور پاکستان کی اسٹبلشمنٹ دونوں سے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،ا ور اس کوشش میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ میں امریکا کے خلاف نہیں۔ میں توسیع کے خلاف نہیں۔ بس میرے سے دوستی کر لیں۔

کیونکہ عمران خان نے اب تک جو سیاست کی ہے وہ اسٹبلشمنٹ کی مدد سے ہی کی ہے۔ وہ یہی جانتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدار میں آنا ممکن نہیں۔ اس لیے وہ اب اسٹبلشمنٹ سے اپنے بند دروازے کھول رہے ہیں، یو ٹرن لے رہے ہیں لیکن ایسے یوٹرن کے فوری نتائج ممکن نہیں۔ اس میں وقت لگتا ہے۔ شاید عمران خان سمجھتے ہیں کہ وقت ہی ان کے پاس نہیں ہے۔ ان کی جلدی ہی ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ انھیں لڑائی اور صلح دونوں میں تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

یہ بچوں کا کھیل نہیں آج مخالف ٹرینڈ بنا دیا آج میر جعفر و میر صادق بنا دیا اور پھر اگلے دن کہہ دیا تازہ خبر آئی ہے مسٹر ایکس اور مسٹر وائی یہ سوچ رہے ہیں یہ مذاق نہیں ہے، یہ کرکٹ بھی نہیں ہے۔ یہ سیاست ہے اور سنجیدہ کھیل ہے، ریاست کو داؤ پر لگانے کی اجازت کوئی نہیں دے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس