مختار مسعود صاحب کی مسحورکن تحریریں : تحریر ذوالفقار احمد چیمہ


ہماری سول سروس بانجھ ہو چکی ہے، اس کی کوکھ سے اب مختار مسعود اور الطاف گوہر جیسے گوہر نہیں نکلتے، آج وہاں سے صرف سطحی معلومات اور واجبی سی انگریزی لکھنے والے کلرک نکل رہے ہیں یا وہ روشن دماغ اور فکرِرسا سے محروم درمیانے درجے کے افسر پیدا کر رہی ہے۔

رومی اور سعدی سے آشنائی اور فارسی اور اردو ادب کا ذوق تو دور کی بات ہے پورے بیچ میں شاید کوئی ایک آدھ افسر ہی ایسا ہو جو اردو شعر کو صحیح وزن کے ساتھ پڑھ سکے۔

سول سروسز کی نرسری یعنی اعلی درجے کی یونیورسٹیوں میں طلبا سے مکالمہ کریں تو یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ نہ اقبال کی شاعری سے آشنا ہیں اور نہ ہی مختار مسعود کی نثر سے۔ نہ انھوں نے شعر اقبال سے اور نہ آوازِ دوست کی نثرسے اپنے قلب و دماغ کو روشن کرنے کی زحمت کی ہے۔ راقم اس وقت گورنمٹ کالج لاہور کا طالب علم تھاجب آوازِدوست چھپی اور ادبی افق پر چھا گئی۔

ایک تقریب میں بیسویں صدی کے بابائے اردو ڈاکٹر سید عبداللہ کی زبانی میں نے خود سنا، اردو زبان اس بات پر ہمیشہ فخر کرے گی کہ آواز دوست اردو میں لکھی گئی ہے۔ میںنے اس وقت دو تین ماہ بچت کی اور وقت کی مقبول ترین کتاب خریدنے کے لیے چار سو روپے خرچ کر ڈالے اور اس کی مسحور کن تحریر پڑھ کر جھومتا رہا۔ سروس میں آنے کے بعد یہ کتاب بار بار پڑھی اور ہر بار پہلے سے بڑھ کر لطف اندوز ہوا۔

بلاشبہ لفظ لفظ قابلِ داد، بعض فقرے لاجواب اور کچھ صفحات داد سے بالاتر ہیں۔ اس وقت کے بعض دور کے بعض طلبا نے آوازِدوست کے کچھ پیراگراف رٹ لیے تھے جنھیں وہ تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں استعمال کیا کرتے تھے۔ انٹر کالجیٹ مباحثوں میں آوازِدوست کے دل میں اتر جانے والے فقروں پر سب سے زیادہ تالیاں بجتی تھیں۔

آوازِدوست کے مصنف مختار مسعود صاحب کے والد شیخ عطااللہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر تھے، مختار مسعود صاحب کا بچپن اور زمانہ طالب علمی اسی فضا اور اسی درسگاہ میں گذرا جسے اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کرنے کی تحریک کے فکری مرکز کی حیثیت حاصل تھی، پاکستان بنتے ہی مقابلے کا پہلا امتحان پاس کرکے محتار مسعود سی ایس پی افسر بن گئے اور کئی جگہوں پر ڈپٹی کمشنر اور کمشنر رہے۔

وہ شخص جس نے پاکستان کے حق میں قائداعظم، نواب بہادریا رجنگ، مولانا ظفر علی خان اور حسرت موہانی کی تقریریں سنی ہوں، جسے قائد کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہو جس نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں خود حصہ لیا ہو اور وطنِ عزیز کی محبت جس کے رگ و پے میں شامل ہو۔

وہ جب کمشنر لاہور کے طور پر اس کمیٹی کی صدارت کررہا تھاجس کے ذمے قراردادِ پاکستان کی یادگار کا ڈیزائن تیار کرنا تھا تو اس کی دلی کیفیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، اپنے جذبات کی ترجمانی اس کے قلم نے اس طرح کی کہ وہ مقام جہاں خواہشِ قلبی اور فرائضِ منصبی کی حدیں مل جائیں اسے خوش بختی کہتے ہیں۔

مختار مسعود صاحب کی پہلی کتاب آوازِدوست نے بلاشبہ مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، اس معرکالآرا کتاب کے بعد انھوں نے سفر نصیب لکھی جس میں دنیا کے مختلف حصوں اور خوبصورت ترین جگہوں پر جانے کی روداد بڑے دلپذیرانہ انداز میں بیان کی گئی ہے، وہ کچھ عرصہ آر سی ڈی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اس کے ہیڈکوارٹر تہران میں تعینات رہے۔

جہاں انھیں انقلابِ ایران کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا، اپنی تیسری کتاب لوحِ ایام میں اس کی روداد قلمبند کی ہے، ان کی چوتھی اور آخری کتاب حرفِ شوق ہے جسے وہ اپنی زندگی میں مکمل کر چکے تھے مگر ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ نے اسے چھپوایا۔ مختار مسعود صاحب نے نوجوانی میں یہ عہد کر لیا تھا کہ وہ ایک اعلی درجے کے نثر نگار بنیں گے۔

اس خواہش کا محرک کون تھا اس کے بارے میں مصنف نے اپنی چوتھی کتاب حرفِ شوق میں خود لکھا ہے کہ ایک روز والد محترم کی ٹیبل پر ایک کتاب پڑی ہوئی ملی، نام تھاغبارِ خاطر جس کتاب نے اردو نثر لکھنے کی تحریک دی، وہ بلاشبہ ابوالکلام آزاد کی کتاب غبارِخاطرتھی مگرآج ہم آوازِدوست کی بات کریں گے جس کے انتساب میں وہ لکھتے ہیں

پرِکاہ اور پارہ سنگ کے نام

وہ پرِکاہ جو والدہ مرحومہ کی قبر پر اگنے والی گھاس کی پہلی پتی تھی

اور وہ پارہ سنگ جو والد مرحوم کا لوحِ مزار ہے۔

کتاب کے چند پیرے قائین کی دلچسپی کے لیے شیئر کر رہا ہوں۔

وہ مقام جہاں خواہشِ قلبی اور فرضِ منصبی کی حدیں مل جائیں اسے خوش بختی کہتے ہیں۔ میں بلحاظ عہدہ اس مجلس کی صدارت کر رہا ہوں مگر عہدے کو ایک عہدِوفا کا لحاظ بھی تو لازم ہے۔

میرے عہدے کا تعلق تعمیر سے ہے، میرے عہد کا تعلق تحریک سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے سنگ و خشت کے بجائے جہانِ نو کی تعمیر اور افکارِ نو کی تعمیر سمجھا۔ میں نے اس مینار کو با الفاظ اقبال جلوہ گہِ جبرئیل جانا اور سوچا:

باکہ گویم سِرایں معنی کہ نورِ روئے دوست

با دماغِ من گل وبا چشمِ موسی آتشست

تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ مینار کی ابتدائی صورت دفائی ضرورت کے تحت وجود میں آئی، پھر اس کی علامتی حیثیت قائم ہوئی، اس کے بعد یہ دین کا ستون بنااور آخر کار نشانِ خیر کے طور پر بنایا جانے لگا۔ مینارِ قرارداد پاکستان ان ساری حیثیتوں پر محیط ہے۔ یہ نظریاتی دفاع کی ضرورت، تحریکِ آزادی کی علامت، دین کی سرفرازی کا گواہ اور ہماری تاریخ کا ایک نشانِ خیر ہے۔

بابر کے عہد سے اورنگ زیب کے دور تک مغل فن میں بہت ترقی ہوگئی۔کلہ مینار، کے بجائے دولت آباد میں فتح مینار بنایا گیا۔ چار نہایت خوبصورت مینار لاہور کی جامع مسجد میں بھی بنائے گئے۔

یہ سنگِ سرخ کے سہ منزلہ ہشت پہلو مینار جن کے اوپر سفید گنبدی بنی ہوئی ہے سادگی اور صناعی کے لاجواب نمونے ہیں۔ پختہ بنیاد مگر آلائشِ دنیا سے بلند۔ یہ توحید، حقانیت اور رفعت کی علامت ہیں۔ اس برِعظیم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا ہے وہ مینار قراردادِ پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں مگر ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت جس میں سکھوں کا گردوارہ اور فرنگیوں کا پڑا شامل ہیں تین صدیوں پر محیط ہے۔

میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گمشدہ صدیوں کا ماتم کر رہاتھا۔ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حقایت کو مل جائے، ملک کے بجائے مفاد اور ملت کے بجائے مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے، تو صدیاں یوں ہی گم ہوجاتی ہیں۔

مینارِپاکستان کی بنیادوں کو تحریک کے مخالفین سے بھی فیض پہنچا ہے۔ اکثریت کی بداندیشی نے مسلمانوں کے لیے جو کنواں کھودا تھا، وہی مینار کی بنیاد کے کام آیا۔ اقلیت میں چند دور اندیش نکل آئے اور وہ دور دور سے بھاری پتھر ڈھو کر لائے تاکہ بنیادیں مضبوط ہوں۔ ان چند معماروں کے پیچھے متعصب اکثریت کی ایک فوج مینار کی تعمیر میں مصروف ہے۔

یہ کبھی اردو زبان پر حملہ کرتی ہے، کبھی مسجد کے آگے باجا بجاتی ہے، تجارت میں بائیکاٹ کرتی ہے اور ملازمت میں حق مارتی ہے۔ حلال پر لڑتی جھگڑتی ہے اور حرام کی ترغیب دیتی ہے۔ مدرسوں میں بندے ماترم گاتی ہے اور مجلسوں میں ترنگے کو سلام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس فوج کو جب صوبائی خودمختاری ملی تو اس نے عرصہ حیات بالکل تنگ کردیا۔

یہ ڈرامے کا پہلا منظر ہے جس کا عنوان ہے تنگ آمد۔ ظاہر ہے کہ مسلمانانِ ہند کی کشمکش کے اگلے منظر کا عنوان بجنگ آمد، ہوگا۔

ایک دن وائسرائے نے بھی اس پر گرہ لگائی کہ ہندوستان ایک جغرافیائی وحدت ہے۔ ایک مزاح نگار نے جواب میں لکھا: خدا نے ساری دنیا کو بھی ایک ہی بنایا تھا، اب اگر انسانوں نے اس دنیا میں ملک بنالیے تو گویا جغرافیہ انسانوں نے بنایا۔ کیوں صاحب! پرانے انسانوں کو جغرافیہ بنانے کا کیوں حق تھا اور ہمیں وہ حق کیوں حاصل نہیں۔ تحریک کے کارکنان نے جغرافیے کا یہ سبق سنا اور تاریخ بنانے میں مصروف ہوگئے۔

1946 میں وزارتی مشن نے پاکستان کو نامناسب قرار دیا، پھر منظر پر نئے اور آخری وائسرائے تشریف لائے اور اپنے سیکرٹری سے کہنے لگے، مسٹر جناح مجھ سے گفتگو کر سکتے ہیں مگر فیصلہ میرا ہی رہے گا۔ یہ ساری باتیں بڑے تحمل سے قائداعظم نے سنیں اور کہادولتِ برطانیہ ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتی ہے مگر گاندھی جی مسلم ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم دونوں کو اپنے پر حکومت نہ کرنے دیں گے، خواہ دونوں متحد ہوکر یا تنہا کوشش کریں۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس